مغرب کی سرد آندھی لپٹی ھے آگ و خوں میں
طوفان اٹھ رھے ھیں ظلمت قدے سے یوں
اس کرب کی حقیقت سب سے چھپائے رکھنا
کوئی اپنا بن کے تم کو برباد کر نہ جائے
اک فاختہ اڑی اور ھم نے خوشی کے مارے
نعرہ لگا دیا تھا سب خیر ھو گئی ھے
اس خواب کی حقیقت معلوم تھی ھمیں بھی
پی کے دراز یوں ھی مخمور ھو گئے تھے
ھمیں نور کا تجسس آسماں پہ لے گیا تھا
اترے زمیں پہ جوں ھی خوں میں نہا گئے تھے
ھر طرف ھے خاموشی موت اجل کا منظر
ھر آنکھ مئتظر ھے اک بندہ پارسا کی
کیا ڈھونڈ لیں گے اس کو مغرب کے یہ شیدائی
جمھور کی چمک میں جس کو ڈبو دیا ھے