حالت حال میں کیا رو کے سناؤں تجھ کو
تو نظر آئے تو پلکوں پہ بٹھاؤں تجھ کو
خود کو اس ہوش میں مدہوش بنانے کے لیے
آیت حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو
کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے
چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو
اب مرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ میں وجد میں لاؤں تجھ کو
کیوں کسی اور کی آنکھوں کا قصیدہ لکھوں
کیوں کسی اور کی مدحت سے جلاؤں تجھ کو
عین ممکن ہے ترے عشق میں ضم ہو جاؤں
اور پھر دھیان کی جنت میں نہ لاؤں تجھ کو
اس نے اک بار مجھے پیار سے بولا تھا سعیدؔ
میرا دل ہے کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو