حالِ دل سن سکو اگر اپنا
ہے بہت قصہ مختصر اپنا
زندگی درد کی مسافت ہے
کاش ہوتا وہ ہمسفر اپنا
اپنی آنکھوں سے ٹوٹتے دیکھا
چوڑیوں کی مثال گھر اپنا
اب تو نظریں چرائے پھرتا ہے
وہ جو تھا ایک چارا گر اپنا
رات کے نیم وا دریچے میں
کوئی تارہ نہ ہے قمر اپنا
کوئی دیوار بھی نہیں اپنی
اب نہیں کوئی بھی شجر اپنا
چھاؤں کی ہے صدفؔ طلب تو بہت
دور ہے سایہ کس قدر اپنا