حبت نا سمجھ ہوتی ہے سمجھانا ضروری ہے
جو دل میں ہے اسے آنکھوں سے کہلانا ضروری ہے
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
نئی عمروں کی خود مختاریوں کو کون سمجھائے
کہاں سے بچ کے چلنا ہے کہاں جانا ضروری ہے
تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں
سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے
بہت بے باک آنکھوں میں تعلق ٹک نہیں پاتا
محبت میں کشش رکھنے کو شرمانا ضروری ہے
سلیقہ ہی نہیں شاید اسے محسوس کرنے کا
جو کہتا ہے خدا ہے تو نظر آنا ضروری ہے
مرے ہونٹوں پہ اپنی پیاس رکھ دو اور پھر سوچو
کہ اس کے بعد بھی دنیا میں کچھ پانا ضروری ہے