ظلم کو ظلم جبر کو جبر لکھنا ہے
دنیا حیران ہو سچ اسقدر لکھنا ہے
مدت ہوئی زبان قلم کو قفل لگے
اہل قلم اب بے خوف و خطر لکھنا ہے
قلم نہ بیچو کبھی امیر شہر کے ہاتھوں
حرمت قلم کےلئے لکھو اگر لکھنا ہے
سب جانتے ہوئے بھی “سب ٹھیک ہے“
لکھو، لکھو جو فریب نظر لکھنا ہے
جی نہیں چاہتا کہ وصل کے بعد
حال جدائی لکھوں مگر لکھنا ہے
جتنی کہہ لی اچھی کہہ لی،اب
داستان زندگی میں سفرہی سفر لکھنا ہے