حریص دل نے زمانہ کثیر بیچا ہے
کسی نے جسم، کسی نے ضمیر بیچا ہے
نہیں رہی بشریت کی خوبی انساں میں
اساسِ انس کا سب نے خمیر بیچا ہے
مذاق اڑ گیا مذہب کا اہلِ علم نے جب
خدا کی آیتوں کو اے فقیر! بیچا ہے
ارم بھی نہ ملی جس کے حصول کی خاطر
سمجھ کر ایماں کو سب نے حقیر بیچا ہے
بس ایک عہدے کی خاطر امیرِ لشکر نے
مخالفین کو ایک ایک تیر بیچا ہے
بزرگ کے ہوا فیضان کا یہاں سودا
کہ پیروکاروں نے اپنا ہی پیر بیچا ہے