حسن و الفت میں خدا نے ربط پیدا کر دیا
درد دل مجھ کو دیا تم کو مسیحا کر دیا
خوب کی تقسیم تو نے اے خیال زلف یار
دل کو نذر داغ سر کو وقف سودا کر دیا
جان لے لینا جلانا کھیل ہے معشوق کا
آنکھ سے مارا لب نازک سے زندہ کر دیا
مجھ کو شکوہ ہے کہ دل کا خون قاتل نے کیا
دل یہ کہتا ہے مجھے قطرے سے دریا کر دیا
ناز ہو یا دلبری افسوں ہو یا جادوگری
سب کو قدرت نے تری چتون کا حصہ کر دیا
دل ادھر رخصت ہوا ہوش اس طرف چلتے ہوئے
کس کی آنکھوں نے یہ در پردہ اشارا کر دیا
میں کہاں چاہت کہاں یہ سب کرشمے دل کے ہیں
تم پہ خود شیدا ہوا مجھ کو بھی شیدا کر دیا
مرحبا اے ساقیٔ جادو نظر صد مرحبا
مست آنکھوں نے مرا نشہ دوبالا کر دیا
دل تڑپتا ہے تو کچھ تسکین ہوتی ہے جلیلؔ
جی بہلنے کو خدا نے درد پیدا کر دیا