حسن کے سحر و کرامات سے جی ڈرتا ہے
عشق کی زندہ روایات سے جی ڈرتا ہے
میں نے مانا کہ مجھے ان سے محبت نہ رہی
ہم نشیں پھر بھی ملاقات سے جی ڈرتا ہے
سچ تو یہ کہ ابھی دل کو سکوں ہے لیکن
اپنے آوارہ خیالات سے جی ڈرتا ہے
اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر
مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے
جو بھی کہنا ہے کہو صاف شکایت ہی سہی
ان اشارات و کنایات سے جی ڈرتا ہے
ہجر کا درد نئی بات نہیں ہے لیکن
دن وہ گزرا ہے کہ اب رات سے جی ڈرتا ہے
کون بھولا ہے نعیمؔ ان کی محبت کا فریب
پھر بھی ان تازہ عنایات سے جی ڈرتا ہے