قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی
کہیں بھی ایوانِ ظلم تعمیر ہو سکے گا نہ اب جہاں میں
ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
عجب مسیحا مزاج خاتون تھی کہ لفظوں کے کیمیا سے
حسینیت کو بھی سانس لینا سکھا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
بھٹک رہا تھا، دماغِ انسانیت، جہالت کی تیرگی میں
جہنم کے اندھے بشر کو رستہ دکھا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
دکانِ وحدت کے جوہری دم بخودہیں اس معجزے پہ ابتک
کہ سنگ ریزوں کو آبگینے بنا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
خبر کرو اہلِ جور کو کہ اب حسینیت انتقام لے گی
یزیدیت سے کہو سنبل جائے، آ گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
نبی(ص) کا دین اب سنور سنور کے یہ بات تسلیم کر رہا ہے
اجڑ کے بھی انبیاء کے وعدے نبھا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
نہ کوئی لشکر، نہ سر پہ چادر، مگر نجانے ہوا میں کیونکر
غرورِ ظلم و ستم کے پُرزے اڑا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
پہن کے خاکِ شفا کا احرام، سر برہنہ طواف کر کے
حسین ! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
کئی خزانے سفر کے دوران کر گئی خاک کے حوالے
کہ پتھروں کی جڑوں میں ہیرے چھپا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
یقیں نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا
یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
ابد تلک اب نہ سر اُٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
غرورِ شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی (ع)کی بیٹی
گزر کے چپ چاپ لاشِ اکبر سے پا برہنہ رسن پہن کر
خود اپنے بیٹوں کے قاتلوں کہ رلا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی
میں اس کے در کے گداگروں کا غلام بن کے چلا تھا محسن
اسی لئے مجھ کو رنج و غم سے بچا گئی ہے علی (ع) کی بیٹی۔