نماز عشق میں نہ سجدے سے سر اٹھایا
دوزانو ہوئے حسین اور سر کٹوایا
فرات کے کنارے ترسے دو بوند پانی کو
خدا نے حوض کوثر جن کیلئے بنوایا
اپنے خون سے سینچا دین مبین کو
کہ رنگ رخ لالہ بھی شرمایا
شام غریباں تھی اسقدر غمگین
جیسے ہو شب مہتاب میں گرھن آیا
سرخ تھی زمیں روئے سنگ و خشت
خون ہر اک دیدہء تر میں آیا
ہمیشہ کیلئے سر بلند کردیا دین محمد
ادا حق خون نہ اسطرح کوئی کر پایا
اہل عشق خاک آنکھوں سے چومتے ھیں
کربلا کے ذرے ذرے میں ہے نور سمایا
تاقیامت مثال ہے شہادت حسین کی
خون اہل بیت لوح وقت سے نہ مٹ پایا