حسینیت کا علم اٹھا کر، بدن پہ تیر ستم سجا کر
یزیدیت کا زہر کچلنے ، چلو شہا د ت کے راستے پر
نئے دنوں کی نوید بن کر، اٹھو صدائے شہید بن کر
فتح کا سورج طلوع کرنے ، چلو بغاوت کے راستے پر
زباں کی بندش کے حکم نامے نظر کے شعلوں سے راکھ کردو
سکوت شب کا سحر پلٹنے ،چلو جسارت کے راستے پر
سجی سجائی رکابیوں میں مسرتیں کب ملیں ہیں یارو
کھٹن ہے آسانیوں کی منزل ، چلو ریاضت کے راستے پر
جو قہر ڈھاتے ہیں بیکسوں پر ان ہی کے ہاتھوں کو کاٹنا ہے
ستمگروں کے شہر میں یارو چلو شجاعت کے راستے پر
سکوں میسر نہیں یہاں پر غموں میں خوشیاں بدل رہی ہیں
سنوارنی ہے جو زندگا نی ، چلو قیادت کے راستے پر