ہم کسی کی حسیں صورت پہ مرنے لگے ہیں
اپنا تازہ کلام اس کی نذر کرنے لگے ہیں
اتنے سال اپنے کمرے میں آہیں بھرنے کے بعد
اب کسی کی محبت کا دم بھرنے لگے ہیں
انہوں نے خواب میں آنے کا وعدہ کیا ہے
اب یوں میری نیندیں برباد کرنے لگے ہیں
میری زندگی میں ان کے دم سے رونق تھی
اب ہم زندگی کی تنہائیوں سے ڈرنے لگے ہیں
اصغر کو اب وہ شربت دیدار نہیں دیتے
ہم ان کی ایک جھلک کو ترسنے لگے ہیں