حضور! کوئی نہیں ہے ، جناب! کوئی نہیں
ہماری خشک زمیں پر سحاب کوئی نہیں
کہاں پہ ، کس نے ، ہمیں کس قدر تباہ کیا
سوال کتنے ہیں لیکن جواب کوئی نہیں
وہ اک کتاب ہی کافی ہے رہنمائی کو
کہ اس سے بڑھ کے جہاں میں کتاب کوئی نہیں
تو پھر یہ دھوپ سی کیسی رُکی ہے صحنوں میں
ہمارے سر پہ اگر آفتاب کوئی نہیں
میں اس کی بزم سے اٹھا تو سب ہی اٹھ آئے
اسے گماں تھا مرا ہم رکاب کوئی نہیں
پھر اس کی سمت اڑائے لئے چلا ہے ہمیں
دلِ تباہ سے بڑھ کر خراب کوئی نہیں
کچھ اس طرح وہ خفا ہیں کہ آجکل انور
سوال کوئی نہیں ہے جواب کوئی نہیں