پینٹ شینٹ چہرے پر غصہ سجا کر
ہاتھ میں حقوق کا جھنڈا پکڑے
کالا چشمہ ۔۔۔۔۔۔ اور بوب کٹ بال
میری بیگم کی چال ہی ہوگئی نرالی
اب کچھ کہتے ہوئے ڈرتا ہوں
کہیں سمجھ نہ لیں اس کو وہ بری گالی
اور کر آئیں کوئی پٹیشن منظور
اور پھیر دیں منہ پر میرے کالی سیاہی
عقل کہے چپ ہو بیٹھیں جیسے بھیگی بلی
کان دبا کر سر جھکا کر
حضور کے آگے جی حضوری
نہ بہکا او دل میرے بھائی
ہائے قسمت بیوی ہوگئی اب لیڈرانی
کلموہی حقوق نسواں کے ہاتھوں
قربانی کا بکرا بنا ہوں
جو امپورٹ ہو کر بدیس سے ملک میں آئی