جو لوگ میری اچھی تشہیر نہیں کرتے
اچھوں کی طرح اچھی تدبیر نہیں کرتے
لکھ لکھ کے ہجو ہم بھی بھجواتے ہیں اُن سب کو
جو کہ ہمارے حق میں تقریر نہیں کرتے
کیا عمدہ لکھائی ہے، جو چیک پہ لکھی اُس نے
ہر روز وہ کیوں ایسی، تحریر نہیں کرتے؟
دعوت سے عداوت کا باعث ہے یہی شوخی
اے کاش تم چمچے کو کفگیر نہیں کرتے
جس رات کہ خوابوں میں دِکھتی ہے انہیں بیگم
اُس خواب کو وہ اچھا تعبیر نہیں کرتے
قبضے کی زمینوں پہ، بنتے کیسے پلازے؟
پہلے جو اگر مسجد، تعمیر نہیں کرتے
کُچھ لوگ دمِ رُخصت تک کرتے نہیں شادی
آزادی کو اپنی وہ زنجیر نہیں کرتے
پبلک کو ڈرادینا ہر گز ہی نہیں مقصد
وہ پوسٹ اپنی کوئی تصویر نہیں کرتے
اس شہرِ خراباد میں شاعر ہیں بہت سرور
تنہا تمہی لفظوں کو گھمبیر نہیں کرتے