زندہ ہیں جب تک مجھے بس گانے ہیں
گیت تیرے نام کے بڑے ہی سہانے ہیں
ہے سجدہ، کبھی رکوع، تو قیام کبھی
یہ سب بس تم سے ملنے کے بہانے ہیں
لوگ ہیں کہ پہچان سے بھی ہیں عاری
آپ ہیں کہ حال دل کا بھی جانے ہیں
مجھے بادلوں کی چال یہ بتاتی ہے
تو نے آج یہ خاکساروں پہ بسانے ہیں
ہم تو سمجھ بیٹھے تھے دنیا کو سب
بعد اس کے آنے ابھی اور بھی زمانے ہیں
بے اعتباری کے اس سنگیں دورمیں
ہم تو بس آپ ہی کو اپنا سب مانے ہیں
اک نشہ تیرے جام کا کھینچتا ہے مجھکو
ورنہ اس شہر میں اور بھی میخانے ہیں
جام پیتے ہیں سب تیرے ہی ہاتھ سے
تو بتا کیوں بنا رکھے اور بھی پیمانے ہیں
ایک تم ہی نہیں ہو غلام اس کے عمراؔن
یہ سب جہاں والے اسی کے دیوانے ہیں