اے میرے مہربان و بندہ نواز
تیری رحمت کا سلسلہ ہے دراز
سن رہا ہوں صدائے کن فیکوں
تو ہی انجام اور تو ہی آغاز
تیرے دربار میں سبھی یکساں
کیسا محمود اور کیسا ایاز
جب مصیبت میں گھرتے ہیں انساں
تو ہی ہوتا ہے سب کا چارہ ساز
دل میں وجدان بھرتا جاتا ہے
چل پڑا ہوں میں جب بھی بہر نماز
تیری رحمت معاً سنبھالتی ہے
جو بھی دیتا ہے تجھ کو اک آواز
میرے خالق میں تیرا منگتا ہوں
یہی کافی ہے مجھ کو اک اعزاز
تیری رحمت کی چھاؤں سب پر ہے
تو نے برتا نہیں کبھی اغماض
جانتا ہے تو سب کی نیت بھی
تو ہی رکھتا سب بھرم اور راز
تو ازل سے ہے اور ابد تک ہے
دل کی دھڑکن میں گونجتا ہے ساز
سارے فرعونیت کے دعوے دار
ٹھوکریں کھا کے آ گئے تھے باز
کوئی جب تجھ کو بھول بیٹھا ہو
ایسے اوقات آ سکے ہیں شاذ
تیری رحمت کے آسرے سے ہے
سدرہ سے آگے بندے کی پرواز
تیری توحید میرا ایماں ہے
تیری وحدت کی پڑھ رہا ہوں نماز
جو بھی صحن حرم میں جھکتا ہے
تیری دعوت کا بنتا ہے غماز
پتھروں میں روئیدگی دیکھی
تیری بخشش ہے اور تیرا اعجاز