رحمت دو جہان تو خالق
کس قدر مہربان تو خالق
ابر اور باد سب ترے محتاج
سبزہ و گل کی شان تو خالق
تیرا فضل و کرم سبھی پر ہے
صاحب عزو شان تو خالق
ریشے ریشے میں تو سمایا ہے
میری زیست اور جان تو خالق
تیرے اکرام نے بنا دی بات
ہے میری آن بان تو خالق
بحر غم سے بچا لیا جس نے
کہتے ہیں نکتہ دان تو خالق
چارہ سازی ازل سے کام ترا
تیری جانب دھیان تو خالق
موج غم میں ہو کشتی جاں تو
اس کا ہے بادبان تو خالق
کو بکو گل ہائے رنگ رنگ کی بہار
بے مثل باغبان تو خالق
قریہ جاں مہک اٹھی گل سے
عطر بیزی تیرے، قربان تو خالق
گرچہ صد رنگ ہیں تیرے جلوے
پھر بھی ہے بے نشان تو خالق
نعمتیں دے کے چھین لینے سے
لیتا ہے امتحان تو خالق
میں ازل سے رہا خسارے میں
پورے کر سب زیان تو خالق
تیری بخشش کی کوئی حد ہی نہیں
کس قدر بے کران تو خالق
کون ہے جو بچائے گا غم سے
کہتے ہیں انس و جان تو خالق
تو ازل سے ہے اور ابد تک بھی
معنی کن فکاں تو خالق
صبح دم شاخوں پر سبھی طیور
کرتے ہیں استحسان تو خالق
عاصیوں کو فقط یہ حوصلہ ہے
ہے رحیم و رحمن تو خالق
جو کہ بے دھیان رہتا ہے تجھ سے
دیتا ہے اس پہ دھیان تو خالق
تیرے انعام کیا شمار کریں
بخششوں کی ہے کان تو خالق
جو کہ تشکیک کے ہیں مارے ہوئے
دیتا ہے امتنان تو خالق
جو کہ سیل زماں میں پچھڑے تھے
کرتا ہے کامران تو خالق
دم نزع ہر ایک ذی روح یہ
کر رہا ہے اعلان تو خالق
ساری مخلوق بھٹکا ریوڑ ہے
جس کا ہے گلہ بان تو خالق
آدمی اضطراب میں جب ہو
دیتا ہے اطمینان تو خالق
عالم آب و گل تیرے پابند
ہے زمین و زمان تو خالق
تیرے سب انبیا مصلح ہیں
زیست کا نگہبان تو خالق
خوگر حمد ہے سبھی مخلوق
رکھتا ہے شادمان تو خالق
ساغر انتظار کھینچتا ہوں
مجھ پہ کر اپنا دان تو خالق
کر رہا ہے شبیر یہ فریاد
مجھ پہ کر دے احسان تو خالق