حوصلہ شرط وفا کیا کرنا
بند مٹھی میں ہوا کیا کرنا
جب کوئی سنتا نہ ہو بولنا کیا
قبر میں شور بپا کیا کرنا
قہر ہے لطف کی صورت آباد
اپنی آنکھوں کو بھی وا کیا کرنا
درد ٹھہرے گا وفا کی منزل
عکس شیشے سے جدا کیا کرنا
دل کے زنداں میں ہے آرام بہت
وسعت دشت نما کیا کرنا
شمع کشتہ کی طرح جی لیجے
دم گھٹے بھی تو گلہ کیا کرنا
میرے پیچھے مرا سایہ ہوگا
پیچھے مڑ کر بھی بھلا کیا کرنا
کچھ کرو یوں کہ زمانہ دیکھے
شور گلیوں میں سدا کیا کرنا