اپنے حکمران سے
اقبال نے پڑھایا تھا جو سبق تو وہ بھلا بیٹھا ہے
خودی کا مفہوم اپنی لغت سے مٹا بیٹھا ہے
جنگ نہیں امن تو ہم سب بھی چاہتے ہیں
مگر تو کیوں خود کو اتنا گرا بیٹھا ہے
عوام سے
ہماری سمجھھ اب کام کیوں نہیں کرتی
جو کرنے کا کام ہے وہ عوام کیوں نہیں کرتی
جو ملک اور قوم کا ذرا وفادار نہیں
ایسے لیڈر کا کام تمام کیوں نہیں کرتی
حکمرانوں سے
میری عرضی سنو تھوڑے سے سمجھدار بنو
صا حب گفتار نہیں صا حب کردار بنو
بے شک امریکہ و برطا نیہ سے دوستی کرو
مگر خدا را تھوڑا سا ملک کے بھی تو وفادار بنو