خاموشی کو باتیں کرتے سناٹوں سے دیکھا ہے
دریچوں کو بےکارالجھتے چوباروں سےدیکھاہے
رشتےمحبت کےجیسے اب خواب ہوئےجاتےہیںسب
دوریوں کو بڑھتے ہوئے دیواروں سے دیکھا ہے
برس ہے بیتاتم سےبچھڑکریہ آیابھی بیت نہ جائے
وعدہ کرکے توڑتے اسکو دیوانوں سے دیکھا ہے
بےمعنی ہوجاتی ہے بلکل بنالگن ہر اک جستجو
چاہ کیسےکی جاتی ہے یہ پیاسوں سے دیکھا ہے
کیوںکہتے ہواجڑگیاہےشہرنہیں یہ ویرانہ ہے
آتے جاتے کئ لوگوں کو راہداروں سےدیکھاہے
شاخوںپربیٹھےپنچھی گیت سناتے اب بھی ہیں
نئ امیدوں کےپھول کوکھلتے باغیچوںسےدیکھاہے
لیئےتمناساحل کی ڈوب نہ جائےکشتی بھنورمیں
ملاحوں کواسلیئےاکثرلڑتے طوفانوںسےدیکھاہے
رہتانہیں سب کچھ ہمیشہ اک جیسا ہی حیاء
وقت کوخود کروٹ بدلتے ان آنکھوں نےدیکھاہے