یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
کوئی نوکری تو ہوتی کوئی کاروبار ہوتا
ہوتی ارب پتی کی جو بیوی تو تھا مزہ
اس شہر کے امیروں میں اپنا شمار ہوتا
ہنستا ہے اور روتا ہے بکھرے ہوئے ہیں بال
کرتا نہ عشق اور نہ بندہ بیکار ہوتا
خاوند ہے یا کہ بھوت مجھے کچھ پتہ نہیں
شادی نہ اس سے کرتی تو دل کو قرار ہوتا
(غالب کی ایک غزل “یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا“ کی پیروڈی بنائی ہے)
میری ابھی شادی نہیں ہوئی فرضی خاوند کا ذکر کیا ہے خدا نہ کرے میرا
ایسا بھوت نما خاوند ہو ہا ہا ہا)