خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں
کون پھرتا ہے در بدر مجھ میں
مجھ کو خود میں جگہ نہیں ملتی
تو ہے موجود اس قدر مجھ میں
موسم گریہ ایک گزارش ہے
غم کے پکنے تلک ٹھہر مجھ میں
بے گھری اب مرا مقدر ہے
عشق نے کر لیا ہے گھر مجھ میں
آپ کا دھیان خون کے مانند
دوڑتا ہے ادھر ادھر مجھ میں
حوصلہ ہو تو بات بن جائے
حوصلہ ہی نہیں مگر مجھ میں