خبر بھی ہے تجھے یا بےخبر ہی رہتا ہے
کہ کوئ اب بھی ترے ہجر کے غم سہتاہے
چوٹ دیتے ہیںایسی کہ دل یہ سہہ نہ سکے
وہ جن کی چاہتوں کا رنگ گہرا ہوتا ہے
کیوں چھپاتے ہو دریچے کی آڑ میں خودکو
صاف دکھتا ہے جو آنکھوںسے آنسوبہتاہے
آگ لگ جاتی ہے جب ذہن میں آتی ہے شبیہہ
وحشت غم سے دل اکثر یہ لہو روتا ہے
جیسے صدیوں سے خارزاروں میں وہ
اک مسافر کج طرح جابجا بھٹکتا ہے
کاش چاہتے ہوئے بھی بند نہ کرپائے غزل
اسکادر جس کو میرا انتظار رہتا ہے