خزاں کا افسانہ ہے بہار کا عنوان ہے
دل میں ہے عداوت اور چہرہ پیار کا عنوان ہے
یہ مطلب کا زمانہ ہے یہاں کوئی نہیں اپنا
جفاکار کے ماتھے پر وفادار کا عنوان ہے
جانے کونسی مجبوری انہیں قائل کرتی ہے
اندر اقرار کی صورت میں باہر اقرار کا عنوان ہے
یہاں ضمیر ہی مردہ ہیں یا لوگ نہیں پڑھتے
اب لہو ہی لہو سارے اخبار کا عنوان ہے
مرنے کے سوا دل میں اب کوئی نہیں حسرت
اس حال میں یہ زندگی بے کار کا عنوان ہے
میرے حال سے ناواقف یہ زمانہ کیا جانے
میری آنکھوں کی لالی تو انتظار کا عنوان ہے
اے حاکم وقت تو کسی فرعون سے بدتر ہے
تیرے عہد کا ہر لمحہ انتشار کا عنوان ہے