وہ پل دو پل کا ملنا پھر گلی اپنی کا ہو جانا
جسے سمجھا بہاروں کا خزاں کا خشک پتا تھا
کہا تھا کہ ہماری مانگ تم تاروں سے بھر دو گے
مگر جو آن ٹھہرا تھا خزاں کا خشک پتا تھا
ادا کرتے رہے ہیں آج تک خراجِ محبت ہم
مگر حاصل وفاؤں کا خزاں کا خشک پتا تھا
اسے عرشی تکبر کی ادا نے کر دیا رسوا
وہ فانی تھا۔۔وجود اس کا خزاں کا خشک پتا تھا