میں خشک جنگل کو چھوڑ کر اب
نئے جزیروں کی راہ دیکھوں
تو معاف کرنا اے میرے ہم دم
یہ مجھ سے ہر گز نہ ہو سکے گا
نیا ٹھکانہ ہر ایک موسم
یہ مجھ سے ہر گز نہ ہو سکے گا
یہ وہ شجر ہیں جو میرے سر پر
سایہ بن کر صدا کھڑے تھے
یہ وہ شجر ہیں جو میری خاطر
باد و باراں سے بھی لڑے تھے
یہ وہ شجر ہیں جنھوں نے مجھ کو
اپنے آنگن میں گھر دیا تھا
جنھوں نے ساون میں میرا دامن
پھلوں سے پھولوں سے بھر دیا تھا
جو آج ان پر خزاں ہے اتری
میں خشک پتوں کو چھوڑ جاؤں
جو ایک مدت گنوا کے پائے
وہ سارے رشتوں کو توڑ جاؤں
عجیب باتیں عجیب منتق
یہ مجھ سے ہر گز نہ ہو سکے گا
کہ میرے تن میں ہے جان جب تک
یہ مجھ سے ہر گز نہ ہو سکے گا
یہیں رکوں گا یہیں لڑوں گا
یہاں کے موسم کی سازشوں سے
کبھی تو برسے گا ابر آخر
امید رکھوں گا بارشوں سے
میں کھینچ لاؤں گا چیر کر کوہ
جنگلوں میں ندی کا پانی
میں آپ سینچوں گا اپنی قسمت
میں آپ لکھوں گا یہ کہانی
خزاں اڑی ہے جو ضد پے اپنی
تو میں بھی ضد پے اڑا رہوں گا
میں ہر شجر کی وفا کے بدلے
خزاں کے آگے کھڑا رہوں گا