خشک ہو گئیں نہریں پیڑ جل چکے ہیں کیا
کچھ چمن تھے رستے میں دشت ہو گئے ہیں کیا
ایک ایک سے پوچھا ہم نے ایک وحشت میں
زندگی کے بارے میں آپ جانتے ہیں کیا
التفات مشکل ہے بات تو کیا کیجے
ہم نہیں برے اتنے اتنے ہی برے ہیں کیا
اپنی زندگانی کو اور رائیگانی کو
ہم اٹھائے پھرتے ہیں لوگ دیکھتے ہیں کیا
یوں ہی آتے جاتے ہو بے سبب ستاتے ہو
سنگ تو نہیں ہیں ہم راہ میں پڑے ہیں کیا
خواب دیکھنے والے معتبر ہوئے کیسے
یہ پرانے سکے یاں پھر سے چل رہے ہیں کیا
صبر کر لیا جائے اب بھی جانے والوں پر
پہلے جانے والے بھی واپس آ سکے ہیں کیا
ہم نے اک تمنا کا راستہ چنا تو ہے
ایک راستے میں بھی اور راستے ہیں کیا
اشتیاق کتنا تھا اور فراق کتنا تھا
جانے پوچھتے ہیں کیوں جانے پوچھتے ہیں کیا
جب رہا نہ کچھ چارہ ہم نے ہار مانی تھی
بس یہی کہانی تھی آپ رو پڑے ہیں کیا