خطاوار مروت ہو نہ مرہون کرم ہو جا
مسرت سر جھکائے گی پرستار الم ہو جا
انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی
انہی الجھی ہوئی راہوں پہ میرا ہم قدم ہو جا
کسی زردار سے جنس تبسم مانگنے والے
کسی بیکس کے لاشے پر شریک چشم نم ہو جا
کسی دن ان اندھیروں میں چراغاں ہو ہی جائے گا
جلا کر داغ دل کوئی ضیائے شام غم ہو جا
تجھے سلجھائے گا اب انقلاب وقت کا شانہ
تقاضائے جنوں ہے گیسوئے دوراں کا خم ہو جا
تجسس مرکز تقدیر کا قائل نہیں ہوتا
شعور بندگی! بیگانۂ دیر و حرم ہو جا
یہ منزل اور گرد کارواں ساغرؔ کہاں اپنے
سمٹ کر رہ گزار وقت پر نقش قدم ہو جا