خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
Poet: Fani Badayuni By: yasir, khi
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا 
 ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا 
 
 اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا 
 زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا 
 
 حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری 
 ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا 
 
 کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں 
 آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا 
 
 مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں 
 راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا 
 
 زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے 
 ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا 
 
 تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ 
 آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا 
 
 اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی 
 یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا 
 
 دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں 
 سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا 
 
 ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں 
 لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا 
 
 وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق 
 دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا 
 
 چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ 
 دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا 
 
 لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں 
 کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا 
 
 ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں 
 کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا 
 
 کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں 
 دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا 
 
 کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ 
 آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا 
 
 ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ 
 زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا
حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا
کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا
مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا
ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا
وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا
چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا
لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں
کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا
ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا
کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں
دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
عمر بھر کیا ناحق ہم نے انتظار اپنا
تاب ضبط غم نے بھی دے دیا جواب آخر
ان کے دل سے اٹھتا ہے آج اعتبار اپنا
عشق زندگی ٹھہرا لیکن اب یہ مشکل ہے
زندگی سے ہوتا ہے عہد استوار اپنا
شکوہ برملا کرتے خیر یہ تو کیا کرتے
ہاں مگر جو بن پڑتا شکوہ ایک بار اپنا
غم ہی جی کا دشمن تھا غم سے دور رہتے تھے
غم ہی رہ گیا آخر ایک غم گسار اپنا
لے گیا چمن کو بھی موسم بہار آ کر
اب قفس کا گوشہ ہے حاصل بہار اپنا
جھوٹ ہی سہی وعدہ کیوں یقیں نہ کر لیتے
بات دل فریب ان کی دل امیدوار اپنا
انقلاب عالم میں ورنہ دیر ہی کیا تھی
ان کے آستاں تک تھا خیر سے غبار اپنا
دل ہے مضطرب فانیؔ آنکھ محو حیرت ہے
دل نے دے دیا شاید آنکھ کو قرار اپنا
دم تو نکلا مگر آزردۂ احساں نکلا
آ گئی ہے ترے بیمار کے منہ پر رونق
جان کیا جسم سے نکلی کوئی ارماں نکلا
دل آگاہ سے کیا کیا ہمیں امیدیں تھیں
وہ بھی قسمت سے چراغ تہ داماں نکلا
دل بھی تھا منہ سے بس اک آہ نکل جانے تک
آگ سینے میں لگا کر غم پنہاں نکلا
چارہ گر ناصح مشفق دل بے صبر و قرار
جو ملا عشق میں غم خوار وہ ناداں نکلا
شکوہ منظور نہیں تذکرۂ عشق نہ چھیڑ
کہ وہ درپردہ مرا حال پریشاں نکلا
بجلیاں شاخ نشیمن پہ بچھی جاتی ہے
کیا نشیمن سے کوئی سوختہ ساماں نکلا
اب جنوں سے بھی توقع نہیں آزادی کی
چاک داماں بھی باندازۂ داماں نکلا
ہائے وہ وعدۂ فردا کی مدد وقت اخیر
ہائے وہ مطلب دشوار کہ آساں نکلا
شوق بیتاب کا انجام تحیر پایا
دل سمجھتے تھے جسے دیدۂ حیراں نکلا
اس نے کیا سینۂ صد چاک سے کھینچا فانیؔ
دل میں کہتا ہوں وہ کہتا ہے کہ پیکاں نکلا
مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا
جلوہ محسوس سہی آنکھ کو آزاد تو کر
قید آداب تماشا بھی تو محفل سے اٹھا
پھر تو مضراب جنوں ساز انا لیلیٰ چھیڑ
ہائے وہ شور انا القیس کہ محمل سے اٹھا
اختیار ایک ادا تھی مری مجبوری کی
لطف سعی عمل اس مطلب حاصل سے اٹھا
عمر امید کے دو دن بھی گراں تھے ظالم
بار فردا نہ ترے وعدۂ باطل سے اٹھا
خبر قافلۂ گم شدہ کس سے پوچھوں
اک بگولہ بھی نہ خاک رہ منزل سے اٹھا
ہوش جب تک ہے گلا گھونٹ کے مر جانے کا
دم شمشیر کا احساں ترے بسمل سے اٹھا
موت ہستی پہ وہ تہمت تھی کہ آساں نہ اٹھی
زندگی مجھ پہ وہ الزام کہ مشکل سے اٹھا
کس کی کشتی تہ گرداب فنا جا پہنچی
شور لبیک جو فانیؔ لب ساحل سے اٹھا
مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا
جب ترا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے
وہ چھپایا راز دل ہم نے کہ افشا کر دیا
کس قدر بے زار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر
جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا
یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے
بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا
دردمندان ازل پر عشق کا احساں نہیں
درد یاں دل سے گیا کب تھا کہ پیدا کر دیا
دل کو پہلو سے نکل جانے کی پھر رٹ لگ گئی
پھر کسی نے آنکھوں آنکھوں میں تقاضا کر دیا
رنج پایا دل دیا سچ ہے مگر یہ تو کہو
کیا کسی نے دے کے پایا کس نے کیا پا کر دیا
بچ رہا تھا ایک آنسودار و گیر ضبط سے
جوشش غم نے پھر اس قطرے کو دریا کر دیا
فانیؔ مہجور تھا آج آرزو مند اجل
آپ نے آ کر پشیمان تمنا کر دیا






