خمار لوٹ رہا ہے شکار آنکھوں میں
میں دےچکی ہوں اسےاختیارآنکھوں میں
یہ آگہی بھی عجب کرب لے کے آ ئ ہے
میں پڑھ چکی سبھی قول و قرار آنکھوں میں
وہ ایک سچ ہے کہانی کا جو نہیں لکھنا
وہ ایک راز مری راز دار آنکھوں میں
ٹھہر نہ جائے کہیں موسم خزاں ان میں
تلاشتی ہوں وہی پھر بہار آنکھوں میں
میں اپنی ذات کے زنداں میں قید ہوں پھربھی
فرار ڈھونڈ رہی پر غبار آنکھوں میں
بٹھائے رکھتی ہوں پلکوں کی چھاؤں میں اسکو
مرا حبیب ، مری سایہ دار آنکھوں میں
چھپے گا کیسے زمانے کی تیز نظروں سے
جو ایک سچ ہے غزل سوگوار آنکھوں میں