خواب آنکھوں سے چنے نیند کو ویران کیا
اس طرح اس نے مجھے بے سر و سامان کیا
خاک ویراں تھا فقط ہو کہ صدا گونجتی تھی
میری وحشت نے بیاباں کو بیابان کیا
میں نے اک شخص کی شائستہ مزاجی کے لیے
اپنی ہر خواہش خوش رنگ کو قربان کیا
اس نے جب چاک کیا وجد میں پیراہن جاں
میں نے بھی نذر جنوں اپنا گریبان کیا
عمر بھر ضبط کی دیوار نہ توڑی میں نے
آہ کھینچی نہ کبھی رنج کا اعلان کیا
عکس حیرت کے سوا کچھ نہ تھا آئینے میں
اپنی آنکھوں کو بہت میں نے پریشان کیا
پھر بھی تعمیر تمنا کی نہ تکمیل ہوئی
میں نے آنگن کو کبھی در کبھی دالان کیا
بانٹ دی لوگوں میں اس نے مری دریوزہ گری
پھر مجھے اخترؔ کم مایہ سے سلطان کیا