خواب ، بس ایک خواب لگتا ہے
تیرا ملنا سراب لگتا ہے
دل نے اب صبر کر لیا شاید
اب وہ کانٹا گلاب لگتا ہے
طعن ، تلخی ، کجی ، کڑی تحدید
بات کرنا عذاب لگتا ہے
میں بھی اب سوچتا ہوں سود و زیاں
وہ بھی محوِ حساب لگتا ہے
ایسے لوگوں میں گھر گیا ہوں جنہیں
دل دکھانا ثواب لگتا ہے
آج گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں
آج موسم خراب لگتا ہے
اب ہمیں ہی نہیں فراغ انور
وہ تو اب دستیاب لگتا ہے