خواب لمحوں کی لمبی ہیں مسافتیں
روح کی صلیب اٹھائے ہورہی ہیں ریاضتیں
روز تهوڑا سا مر جاتا ہے آج کا انسان
ہر دن برپا ہیں ایسی
شورشیں ایوانوں میں
آج پھر دیکھے ہیں کچھ جوان لاشے
ابھی تک وہ چہرے ہیں یادواشتوں میں
روز اک عزم کرکے سوتاہے وہ
اب نہ جلنے دے گا اسے (وطن) عداوتوں میں
کیا کہوں مجھے (وطن )تو لوٹا ہے
میرے اپنوں نے
تن چهلنی
روح فگار
چلا جارہا ہو سکوں کی تلاش میں
جو کبھی تم سے کوئی میری شناخت پوچھے
تو کہنا اقبال کا خواب
قائد کی تعبیر ہوں میں
ملک خداداد پاکستان ہوں میں