منزل کی راہیں تو اختیار کر لے
جانِ جاں! اب تو خود سے پیار کر لے
چھوڑ ! دنیا کی رنگین فضاؤں کو
آجا! خود شناسی اختیار کر لے
خود پرستی میں رکھی نہیں ہے خود شناسی
اسی کا ہی فقدان ہے ، اختیار کر لے
پوچھیں کوئی خود شناسی منطق ہے کیا
بتانا شیرِخدا کا جواب ، اختیار کر لے
بھول گیا انسان خود شناسی کو صفا
میں کروں کیسے بیاں ، اختیار کر لے