خرا ج مل ہی گیا ،سب کی بھاؤناؤں کو
قبولیت کا شرَف مل گیا ……دُعاؤں کو
قبول کر لیا دعوت کو…… ہند کی آخر
جنوں کومنزل مقصود…… مل گئی آخر
عوام پلکیں بچھائے کھڑی ہے بھارت کی
’’شریف بھائی‘‘ ضرورت ہے کب اِجازت کی!
یہاں توسب نے درِ دِل کو وا، ہی رکھا ہے
نواز بھائی چلے آؤ ……، مل کے جینا ہے
وہ سکھ ہو، ہندو ہو، مسلم ہو یا ہوعیسائی
سبھی ہیں چشم براہ کھوئے ہو ،کہاں بھائی؟
رفاقتوں کا کھلا در…… تمہیں بدھائی ہو
ہے ناپسند ہمیں!…… پھرکبھی جدائی ہو
لو……! پھر سے خیر سگالی کا دور لوٹ آیا
’’نواز بھائی ‘‘کو…… انداز یہ بہت بھایا
جو بھائی بھائی ہیں بچھڑے ہوئے، زمانے سے
وہ باز آئیں گے اب رونے اور رُلانے سے
نوازؔ کہہ دیں غزل تو ردیف ہو ں مودیؔ
خیال و فکر میں آجائے پھر سے دل سوزی
اِدھر سے شعر پڑھا جائے شورِ’’واہ‘‘ اُدھر
اُدھر سے نغمہ سرائی ہو،ٹوٹے تان اِدھر
خدایا……! پھر ہو تر و تازہ امن کا گلشن
بہار پھر سے ہو صحنِ چمن میں خیمہ زن
گلے ملیں گے تو سب رنجشیں مٹا لیں گے
سروں پہ تاج محبت کا پھر سجالیں گے
نہ تیر باقی ……نہ نفرت کا ہو کماں باقی
محبتوں کی ہی سرحد ہو…… درمیاں باقی
ہے ہند میں بھی توآباد……ملّتِ اِسلام
عزیزؔ بھی ہے یہاں، جوہے مصطفےٰ ؐکا غلام