نئے نئے کپڑے
ہم بھی سلواتے تھے
ہاتھوں میں چوڑیاں
پہن کر گھنٹوں ُانہیں
ہم بھی چھنکاتے تھے
ساری رات ہاتھوں پے
مہندی ہم بھی لگاتے تھے
اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے
دیپ ہم بھی جلاتے تھے
تنہایوں میں گیت
ہم بھی گاتے تھے
کاغذ کی کشتی پانی میں
ہم بھی بہاتے تھے
ندیاں کنارے اک خوابوں
کا محل ہم بھی سجاتے تھے
پل میں روٹھتے اور
فورن مان بھی جاتے تھے
تتلیاں پکڑ کر پھر ُانہیں
ہم بھی ُاڑاتے تھے
ہنسی ہنسی میں نجانے
ہم کتنا ہی مسکراتے تھے
چاند کو چاندا ماموں
ہم بھی بلاتے تھے
جگنوں کو چلتے ستارے
ہم بھی کہتے تھے
معصوم سا چہرہ بنا کر
شرارت ہم بھی کرتے تھے
سارا سال عید کا انتظار
ہم بھی کرتے تھے
کتنا حسین تھا وہ
بچپن ہمارا لکی
جب خوشی سے عید
ہم بھی مناتے تھے