اندوہ سے ہوں نڈھال آقا
ہر سانس ہوا وبال آقا
وحشی ہوئی صرصر حوادث
گرتا ہوں مجھے سنبھال آقا
بے صرفہ گزرتے جا رہے ہیں
روز وشب ومال وسال آقا
کب دیکھا تھا چشم آدمی نے
اخلاص کا ایسا کال آقا
اخلاق کی شکستہ حالی
انصاف کا یہ زوال آقا
رچ بس گیا زیست کی رگوں میں
زہر زرو سیم و مال آقا
ارزاں ہے تو صرق خون انسان
اک شغل ہے اب قتال آقا