خونِ دل دے کہ نئے راستے ہموار کئے
عاشقوں نے ہی سر اپنے سرِ تلوار کئے
جو پوشیدہ تھے میرے راز تیرے پاس
جانے کیا سوچ کہ تو نے سرِ اخبار کئے
نہ ہوئی داد رسی نہ ملا حق دار کو حق
فیصلے کیسے یہ تو نے سرِ دربار کئے
میں سنبھلنے تو لگا تو نے مگر دوست میرے
بھرتے زخموں پہ میرے روز نئے وار کئے
میں عجب شان سے اس شہر میں آیا پارس
راستے مل کہ سبھی نے میرے پر خار کئے