خیالوں ہی خیالوں میں تیرا آنا،تیرا جانا
امیدیں پاکے ساحل کی خود ہنسنا، ہنسانا
مجھے وہ دیکھنا محبت بھری ترچھی نگاہوں سے
مجھے وہ چاہنا حسرت بھری دل کی پناہوں سے
قفس کو چھوڑ کر دنیا کے رسموں کو، رواجوں کو
کہیں سے ڈھونڈھ کے چھوٹی سی دل کی پناہوں کو
زرا روکے، زرا ہنس کے، دل کو بہلا جانا
ہر اک حالِ دل خود کا خود سے بتا جانا
پناہیں پا کے باہوں کی پھر دل میں سماجانا
لگا ہے آج پھر ایسا کہ تو گیسو لہرائی ہے
بہاریں جھوم کر پھر سے میرے دامن میں آئی ہیں
تیری نرم و نازک زلفوں سے، محبت کے خزانے سے
بھنی بِھنی مہکی، خوشبو سی آئی ہے
نہیں ہے تو میرے سنگ، تیری ادائگیاں سنگ ہیں
تیری چاہت کی ہر اک موڑ بھی دعائیہ سنگ ہے
خیالوں میں آج بھی باقی تیری پرچھائیاں سنگ ہے
نہیں ہوں تنہا میں، تو سنگ ہے، ہرپل خیالوں میں
نہ جانے پھر بھی کیوں لگتا ہے کہ تنہائیاں سنگ ہے