جاں فزا ہے باغِ جنت سے ہواے کوئے دوست
ہے مُشامِ ذہن و دل میں ہر گھڑی خوشبوئے دوست
خواب ہی میں دیکھ لوں گر جلوۂ نیکوئے دوست
ہر نفس قائم رہے پھر دل میں میرے بوئے دوست
جن کو قسمت سے ملی پُشتوں تلک مہکا کیے
ایسی خوشبو ہے بسی درمیاں گیسوئے دوست
یاخدا! مقبول فرما لے دعاے خستہ جاں
ہے تمنّا رُویا میں ہو دیٖدِ حُسنِ روئے دوست
دشمنِ جاں کو دعاوں سے نوازا آپ نے
ہاں نرالی اس قدر ہر ایک سے ہے خوئے دوست
اُن کی مدحت کا بیاں کرنا تو ممکن ہی نہیں
خود خداے پاک قرآں میں ہے مدح گوئے دوست
ہے یقیں مقبول ہو گی مجھ مُشاہدؔ کی دعا
کیوں کہ میرے دل میں ہے چھایا خیالِ موئے دوست