خیموں میں اب حسین کا پانی نہیں رہا
اسلام کا زمانے میں بانی نہیں رہا
اکبر بھی چل پڑے ہیں جو میدان کی طرف
یوسف کے آج حُسن کا ثانی نہیں رہا
فرمان مصطفے کا سپاہِ یزیر کو
ارمان ہے کہ یاد زبانی نہیں رہا
بوڑھا اٹھا رہا جو میت جوان کی
تشنہ دہیں ہے عہدِ جوانی نہیں رہا
وشمہ بنے جو دشمنِ سبطِ نبی یہاں
اِن کو کوئی تصورِ فانی نہیں رہا