دائیں بازو میں گڑا تیر نہیں کھینچ سکا
اس لئے خول سے شمشیر نہیں کھینچ سکا
شور اتنا تھا کہ آواز بھی ڈبے میں رہی
بھیڑ اتنی تھی کہ زنجیر نہیں کھینچ سکا
ہر نظر سے نظر انداز شدہ منظر ہوں
وہ مداری ہوں جو رہ گیر نہیں کھینچ سکا
میں نے محنت سے ہتھیلی پہ لکیریں کھینچیں
وہ جنہیں کاتب تقدیر نہیں کھینچ سکا
میں نے تصویر کشی کر کے جواں کی اولاد
ان کے بچپن کی تصاویر نہیں کھینچ سکا
مجھ پہ اک ہجر مسلط ہے ہمیشہ کے لئے
ایسا جن ہے کہ کوئی پیر نہیں کھینچ سکا
تم پہ کیا خاک اثر ہوگا مرے شعروں کا
تم کو تو میر تقی میرؔ نہیں کھینچ سکا