اپنی محبوبہ سے ملنے کا بہت شوق تھا مجھے
اسے قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا مجھے
لیکن جب وہ میرے سامنے آتی تھی
تب وہ میرے ہوش اڑاتی تھی
اسکے قرب کا جلوہ میں سہ نا سکتا تھا
مارے ڈر کے کچھ کھ نہ سکتا تھا
لکھ دیا اک دن اک خط صبر کر کے
دل پے جبر ارمانوں کی قبر کر کے
بھولی بھالی تھی بے چاری سمجھ نہ سکی میرے پیار کو
اور وہ خط دے دیا اپنے بھائی دلدار کو
غصے کے دربا کی میں نے موج دیکھی
جب دلدار کے پیچھے اس کے بھائیوں کی فوج دیکھی
آنے والوں میں غفار تھا جبار تھا بیدار تھا
مگر ان سب کا جو لیڈر تھا اس کا بڑا بھائی دلدار تھا
میں نے کہا دیکھو دیکھو نواب آیا ہے
ساتھ اپنے لے کر کوئی عزاب آیا ہے
میں نے کہا آخر یہ کس پر عزاب آیا ہے
دل نے کہا کچھ تیرے خط کا جواب آبا ہے
آتے ہی اس نے بلایا مجھ کو
خط نکال کر دیکھایا مجھ کو
کہنے لگا یہ صورت ہے تیرے اظہار کی
تجھے پتہ نہیں یہ بہں ہے دلدار کی
ایسی باتیں کر کے اس نے مجھے بھٹکا دیا
رسی سے باندہ کر چھت سے لٹکا دیا
اس کے پاس بلہ تھا اس کی بہن کے پاس ہاکی تھی
نکل گئی پیار کی امید جو مجھ میں باقی تھی
ان کے مارنے سے میرے جسم سے کئی ساز نکل رہے تھے
اب تو منہ سے اگلے پچھلے بھی راز نکل رہے تھے
موت سے فاصلہ بہت کم نظر آنے لگا تھا مجھ کو
تب جا کے ظالموں نے چھڑا مجھ کو
اب جب بھی کبھی میری محبوبہ میرے سامنے آتی ہے
میری آنکھ فورن بھر آتی ہے
دل کے ارماں یہ کہنے لکتے ہیں
کبھی ہم میں تم میں قرار تھا
تمہیں یا ہو کہ نہ یاد ہو
پڑا ہے مہنگا ہمارا پیار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اس میں لٹکا ہوا یہ خاکسار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اس پے چڑہا ہوا تمھارا بھائی دلدار تھا
تمہیں یاد ہو