Add Poetry

داستان دلدار

Poet: By: Nasir Ali, Islamabad

اپنی محبوبہ سے ملنے کا بہت شوق تھا مجھے
اسے قریب سے دیکھنے کا بہت شوق تھا مجھے

لیکن جب وہ میرے سامنے آتی تھی
تب وہ میرے ہوش اڑاتی تھی

اسکے قرب کا جلوہ میں سہ نا سکتا تھا
مارے ڈر کے کچھ کھ نہ سکتا تھا

لکھ دیا اک دن اک خط صبر کر کے
دل پے جبر ارمانوں کی قبر کر کے

بھولی بھالی تھی بے چاری سمجھ نہ سکی میرے پیار کو
اور وہ خط دے دیا اپنے بھائی دلدار کو

غصے کے دربا کی میں نے موج دیکھی
جب دلدار کے پیچھے اس کے بھائیوں کی فوج دیکھی

آنے والوں میں غفار تھا جبار تھا بیدار تھا
مگر ان سب کا جو لیڈر تھا اس کا بڑا بھائی دلدار تھا

میں نے کہا دیکھو دیکھو نواب آیا ہے
ساتھ اپنے لے کر کوئی عزاب آیا ہے

میں نے کہا آخر یہ کس پر عزاب آیا ہے
دل نے کہا کچھ تیرے خط کا جواب آبا ہے

آتے ہی اس نے بلایا مجھ کو
خط نکال کر دیکھایا مجھ کو

کہنے لگا یہ صورت ہے تیرے اظہار کی
تجھے پتہ نہیں یہ بہں ہے دلدار کی

ایسی باتیں کر کے اس نے مجھے بھٹکا دیا
رسی سے باندہ کر چھت سے لٹکا دیا

اس کے پاس بلہ تھا اس کی بہن کے پاس ہاکی تھی
نکل گئی پیار کی امید جو مجھ میں باقی تھی

ان کے مارنے سے میرے جسم سے کئی ساز نکل رہے تھے
اب تو منہ سے اگلے پچھلے بھی راز نکل رہے تھے

موت سے فاصلہ بہت کم نظر آنے لگا تھا مجھ کو
تب جا کے ظالموں نے چھڑا مجھ کو

اب جب بھی کبھی میری محبوبہ میرے سامنے آتی ہے
میری آنکھ فورن بھر آتی ہے

دل کے ارماں یہ کہنے لکتے ہیں

کبھی ہم میں تم میں قرار تھا
تمہیں یا ہو کہ نہ یاد ہو
پڑا ہے مہنگا ہمارا پیار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اس میں لٹکا ہوا یہ خاکسار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
اس پے چڑہا ہوا تمھارا بھائی دلدار تھا
تمہیں یاد ہو

Rate it:
Views: 478
01 Jul, 2011
Related Tags on Funny Poetry
Load More Tags
More Funny Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets