پوشیدہ نہیں آپ سے جو حال ہے امت کا
سیلاب سا امڈا ہے باطل کی عداوت کا
توحید کی دنیا میں پھیلے گی ضیا ہر سو
فاران سے ابھرا ہے خورشید رسالت کا
پھر آج ضرورت ہے فاروق کی خالد کی
دنیا ہے پھر بدلا انداز قیامت کا
پھر دامنِ رحمت میں خود آپ سمٹ آئے
جینے ہی نہیں دیتا احساس ندامت کا
اب گنبدِ خضرا کا منظر ہے نگاہوں میں
یا میرے تصور میں نظّارا ہے جنت کا
منزل مرے قدموں میںخود آپ سمٹ آئے
جب دل میں چلوں لے کر مَیں شوق زیارت کا
خالق نے ازل ہی سے سرکارِ مدینہ کو
مختار بنایا ہے مَے خانۂ وحدت کا
جب نام شہِ دیں کا سنتا ہوں سرِ محفل
جھک جاتا ہے سر میرے جذبات و عقیدت کا
مسرور نہ ہوں کیوں کر وہ اپنے مقدّر پر
حاصل ہے شَرَف جن کو سرکار کی مدحت کا
کیوں ڈر ہو مُشاہدؔ کو میزان و سرِ پُل پر
ہر شعر میں ہے میرے انداز عبادت کا