سلام اے دختر مشرق ! سلام اے عزم کی بانی
تجھے جچتے تھے بے شک سر بسر انداز سلطانی
کہاں مقصود تھی تجھ کو یہ دولت کی فراوانی
ترا منشور تھا انصاف کی ہر جا پہ ارزانی
تری فطرت میں پوشیدہ کئی شاہینی جوہر تھے
سراپا روشنی تھی ذات تیری، فضل یزدانی
تو وہ آواز جمہوری، جو دشمن آمریت کی
سکوں دے کر ، مٹانا چاہتی تھی تو پریشانی
وطن کی سر زمیں جنت بنانا چاہتی تھی تو
کشادہ سوچ تھی تیری، نہ تھا کوئی ترا ثانی
ترا شیوہ غریبوں کی حمایت تھا زمانے میں
ترا دستور تھا مشکل میں، پیدا کرنی آسانی
تری جمہوریت سے آشنائی تو پرانی ہے
تری، تیرے گھرانے کی ہے یہ تو جانی پہچانی
چراغ حریت بھی تو، تو ہی قندیل آزادی
جہان جبر میں جمہوریت کی تو مہارانی
وہ غیور اور بہادر تھی، نڈر، بیباک بھی رومی
وہ تھی صبر و رضا والی، وہ تھی فخر مسلمانی
وہ تھی دنیا میں اک کوہ گراں رومی ! عزیمت کا
اسے جچتے تھے بے شک سر بسر انداز سلطانی