در آیا اندھیرا آنکھوں میں اور سب منظر دھندلائے ہیں
یہ وقت ہے دل کے ڈوبنے کا اور شام کے گہرے سائے ہیں
یہ ذرا ذرا سی خوشیاں بھی تو لاکھ جتن سے ملتی ہیں
مت چھیڑو ریت گھروندوں کو کس مشکل سے بن پائے ہیں
وہ لمحہ دل کی اذیت کا تو گزر گیا اب سوچنے دو
کیا کہنا ہوگا ان سے مجھے جو پرسش غم کو آئے ہیں
جلتی ہوئی شمعوں نے اکثر احساس کی راکھ کو بھڑکایا
قربت میں دمکتے چہروں کی تنہائی کے دکھ یاد آئے ہیں
سوچوں کو تر و تازہ رکھا شبنمؔ ترے پیہم اشکوں نے
حیرت ہے کہ عہد خزاں میں بھی یہ پھول نہیں کمھلائے ہیں