اترا ہے بہت آج عزادار کا چہرا
مغموم ہی دیکھا ہے دل افگار کا چہرا
بے مثل زمانے میں ہے سردار کا چہرا
جس میں نظر آئے شہ ابرار کا چہرا
آغوش رسالت میں تو پروان چڑھا ہے
بے داغ رہا ہے ترے کردار کا چہرا
ہے دین محمد کی بقا تیری شہادت
نکھرا ہے ترے خون سے گلزار کا چہرا
شبیر سر حشر اسے شاد کریں گے
دیکھیں گے جو مضطر وہ گنہگار کا چہرا
ہوں عون و محمد کہ ہو معصوم سکینہ
ہر اک میں نہاں دیکھا ہے سرکار کا چہرا
سکہ ہے زمانے میں رواں ابن علی کا
کرتا ہے عیاں ظالم و مکار کا چہرا
کیا جانئے کیا روح محمد پہ ہے گزری
زینب نے جو دیکھا بھرے بازار کا چہرا
قاسم ہوں کہ اصغر ہوں، ہر اک فرد لئے تھا
زہرا کی جھلک ، حیدر کرار کا چہرا
رومی ! ہے مرے سامنے پھر شام غریباں
آنکھوں میں پھرے عابد بیمار کا چہرا