عنایت وہ ہم پہ اگر کرتے ہیں
تو چرچا اسکا گھر گھر کرتے ہیں
آمد فصل بہار سے بہت پہلے
نوردی ہم نگر نگر کرتے ہیں
ہو جائیگا بدنام یوں گر جلوہ دکھلایے
اس کی وہ کاہے کو فکر کرتے ہیں
سن کر خبر مرگ ناصر وہ حضرت
ترنت یہ خبر جا بجا نشر کرتے ہیں
طالب ہوتا ہوں اگر انکی ملاقات کا
تو وہ اس پر اگر مگر کرتے ہیں
محفل میں جب وہ چہکے رقیبوں سے
ہم اس دم بڑا دل پہ جبر کرتے ہیں
دن ہمارے اسکی گلیوں میں ہیں گزرتے
راتیں ہم اس در مقتل پہ بسر کرتے ہیں
وصل ہوگا اب‘ ہجر کہتے کسے ہیں
کہا تھا کبھی‘ مگر وہ اب مکر کرتے ہیں
دیکھو! ناصر آج ہو رہا ہے خوش
کہ بزم میں وہ اس کا ذکر کرتے ہیں