در و دیوار پر سایہ پڑا ہے
ہواؤں میں نمی کا ذائقہ ہے
کوئی طوفان ہے کچا گھڑا ہے
نگاہ شوق منزل آشنا ہے
وہی کنج قفس ہے اور ہم ہیں
وہی امید کا جلتا دیا ہے
میں آئینے میں خود کو کھوجتا ہوں
یہ گاؤں کب کا خالی ہو چکا ہے
دسمبر کی کہانی اور کچھ تھی
مرے دل کا اجڑنا حادثہ ہے
غم عقبیٰ غم دوراں غم دل
ہمیں کتنا بنایا جا رہا ہے
یہاں انسان بوئے جا رہے ہیں
یہ جنگل اس لیے کاٹا گیا ہے
قبیلہ قافلہ قیدی قطاریں
یہ منظر شام تک پھیلا ہوا ہے
یہ رستہ دور تک جاتا ہے راحلؔ
ہمیں پیچھے بھی مڑ کر دیکھنا ہے